Tuesday, June 21, 2022

 دِل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فُرصت کے رات دن

جاڑوں کی نرم دھوپ اور آنگن میں لیٹ کر
آنکھوں پہ کھینچ کر ترے آنچل کے سائے کو
اوندھے پڑے رہیں، کبھی کروٹ لئے ہوئے
یا گرمیوں کی رات کو پُروائی جب چلے
بستر پہ لیٹے دیر تلک جاگتے رہیں
تاروں کو دیکھتے رہیں چھت پر پڑے ہوئے
برفیلے موسموں کی کسی سرد رات میں
جا کر اسی پہاڑ کے پہلو میں بیٹھ کر
وادی میں گونجتی ہوئی خاموشیاں سنیں
دِل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فُرصت کے رات دن

گلزار

 کون آئے گا!


شب بھر گرتے پتوں کی آوازیں مجھ سے کہتی ہیں

کون آئے گا!

کس کی آہٹ پر مٹی کے کان لگے ہیں!

خوشبو کس کو ڈھونڈ رہی ہے!

شبنم کا آشوب سمجھ

اور دیکھ کہ ان پھولوں کی آنکھیں

کس کا رستہ دیکھ رہی ہیں

کس کی خاطر

قریہ قریہ جاگ رہا ہے

سونا رستہ گونج رہا ہے

کس کی خاطر!!

تنہائی کے ہول نگر میں

شب بھر گرتے پتوں کی آوازیں چنتا رہتا ہوں

اپنے سر پر تیز ہوا کے نوحے سنتا رہتا ہوں

امجد سلام امجد

 کوئی خاموش پنچھی اپنے دل میں

امیدوں کے سنہرے جال بُن کے
اڑا جاتا ہے چگنے دانے دُنکے
فضاۓ زندگی کی آندھیوں سے
ہے ہر اک کو بہ چشمِ تر گزرنا
اسے اڑ کر ، مجھے چل کر گزرنا

مجید امجد

 جو دن کبھی نہیں بیتا وہ دن کب آئے گا

انہی دنوں میں اس اِک دن کو کون دیکھے گا

میں روز ادھر سے گزرتا ہوں کون دیکھتا ہے
میں جب ادھر سے نہ گزروں گا کون دیکھے گا

ہزار چہرے خود آرا ہیں کون جھانکے گا
مرے نہ ہونے کی ہونی کو کون دیکھے گا

تڑخ کے گرد کی تہ سے اگر کچھ پھول
کھلے بھی، کوئی تو دیکھے گا کون دیکھے گا

(مجید امجد)

 ابھی ابھی سبز کھیتوں پر

جو دور تک مست آرزوؤں کی موج بن کر لہک رہی ہیں
سیاہ بادل جھکے ہوئے تھے
اور اب، حسین دھوپ میں نہاتی فضائیں زلفیں چھٹک رہی ہیں

طویل پٹڑی کے ساتھ رقصاں
مہیب پیڑوں کے گونچتے جُھنڈ!
دراز سایوں سے بچتی راہیں
کہ جن کی موہوم سرحدوں پر
نکل کے گاڑی کی کھڑکیوں سے،
تری نگاہیں مری نگاہیں
الگ الگ آکے تھم گئی ہیں

مجید امجد

Tuesday, January 30, 2018

احمد راہی


دوست مایوس نہ ہو
سلسلے بنتے بگڑتے ہی رہے ہیں آخر
تیری پلکوں پہ سر اشکوں کے ستارے کیسے
تجھ کو غم ہے تیری محبوب تجھے مل نہ سکی
اور جو زیست تراشی تھی ترے خوابوں نے
آج وہ ٹھوس حقائق میں کہیں کھو گئی
تجھ کو معلوم ہے میں نے بھی محبت کی تھی
اور انجام محبت بھی ہے معلوم تجھ کو
انگنت لوگ زمانے میں رہے ہیں ناکام
تیری ناکامی نئی بات نہیں دوست مرے
کس نے پائی ہے بھلا زیست کی تلخی سے نجات
چار وناچار یہ زہر اب سبھی پیتے ہیں
جاں سپاری کے فر یبندہ فسانے پہ نہ جا
کون مرتا ہے محبت میں سبھی جیتے ہیں
وقت ہر زخم کو ، ہر غم کو مٹا دیتا ہے 
وقت کے ساتھ یہ صدمہ بھی گزر جائیگا
اور جو باتیں دہرائی ہیں میں نے اس وقت 
تو بھی اک روز انہی باتوں کو دہرائے گا
دوست مایوس نہ ہو!
سلسلے بنتے بگڑتے ہی ریے ہیں آخر

نامعلوم


میں نے چاہا اسے بھول جاؤں 
فراموش کر دوں وہ سب روزو شب
اس کو دیکھوں تو یوں کہ واقف نہیں
میں بھی اب اس کی طرح  کسی اور کو ساتھ لے کر چلو
ہر گھڑی خوش رہوں مسکراتا پھروں بے وجہ بلا سبب 
جب ہوا کے قدم مثل مے نوش
بے ڈھب سے پڑنے لگیں
چاندنی کھڑکیوں سے پکاڑے اگر
نگائیں چمکنے لگیں
آہٹیں کانوں میں سرگوشیاں کرکے چلنے لگیں
دست موسم کی ایجاد سے پیرہن
زرد پتے بدلنے لگیں
بخت خوابیدہ گلناز آنکھیں ملنے لگے
کاش یوں ہو
تب اس کو دیکھوں
تو وہ اجنبی سا لگے
اس کی آہٹ پر خواہشوں کے گل نہ کھلیں اور وہ پکاڑے اگر
تو اس کی آواز پر کان تک نہ دھروں
عہد رفتہ کی ہر آواز کو بھول کر
آنے والی رتوں کا سواگت کروں
اس کے چہرے کو چہروں کے اندھیروں میں اس طرح گم کروں
 نہ وہ آنکھیں رہیں نہ وہ گیسو نہ وہ رت
میں نے چاہا اسے بھول جاؤں 
فراموش کردوں سب مگر۔۔۔۔۔۔